Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

حال دل

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2017ء

احمد پور شرقیہ صدیوں ہزاروں سال پرانا ایک قدیمی شہر ہے لاہور‘ دہلی‘ اُوچ اور بغداد کی طرح بہت اونچے ٹیلوں پر آباد ہے‘وہی تنگ و تاریک گلیاں‘ وہی پرانی تہذیبیں‘ پرانا تمدن اور کلچر جس کے آثار بہت مٹائے لیکن پھربھی باقی ہیں‘ زمانہ بہت ترقی کرگیا‘ پرانی تہذیبیں مٹ گئیں‘ نئی تہذیبوں نے جنم لے لیا لیکن احمدپور شرقیہ ان چند پرانے شہروں میں ہے جو کہ ابھی تک اپنا وقار‘ تہذیب‘ تمدن‘ محبت‘ الفت پیار لیے باقی ہے۔ مشہور ہے کہ احمدپور اور بہاولپور محلات کا شہر تھا‘ اس میں نوابان بہاول پور کے قدیم اور حیرت انگیز عجیب و غریب طرز و تعمیر سے نمایاں محلات ہی محلات تھے ہر محل پانچ منزلہ اور بہت وسیع و عریض سرنگوں اور تہہ خانوں سے تعمیر شدہ ہے‘میرا خاندان صدیوں سے یہاں آباد ہے‘ آبائی پیشہ تجارت‘ زمینداری اور حکمت ہے‘میرے پڑدادا ایک عظیم انسان تھے‘ اُن کے اور اُن کے پڑدادا کے انوکھے کمالات تھے‘ میرے تمام خاندانی حالات تفصیل سے پڑھنے کیلئے عبقری پبلی کیشنز کی طبع شدہ کتاب ’’خاندانی حالات‘‘ پڑھیے۔ لفظ احمد پور دراصل نواب احمد خان کے نام سے مشہور ہے جس کے نام پر ابھی تک ایک پرانا محلہ کٹہڑا احمدخان ابھی بھی موجود ہے‘ اور وہاں نواب کی پرانی پتلی اینٹوں سے بنے فوجوں کی بارکیں اور گھوڑوں کے اصطبل کے آثار ابھی بھی موجود ہیں۔ تحریک ریشمی رومال احمدپور کا مرکز رہا‘ بالاکوٹ کی تاریخ احمدپور کا حصہ رہا‘ بڑے بڑے علماء‘ فقہاء‘ حکماء‘ شعراء‘ ادیب احمدپور شرقیہ کی دھرتی سے عالم میں مشہور ہوئے‘ شہرت پائی اور انسانیت کی بے بہا خدمت کی‘ احمدپور اور اس کے گردو نواح میں پیرفضل علی قریشی رحمۃ اللہ علیہ کے تقریباً گیارہ کے قریب خلفاء ہیں۔ آموں کے اعتبار سے بہت مشہور‘ مٹی کے برتن‘ گلدستے‘ نفیس جوتے‘ ’’کھسے‘‘ سوہن حلوہ‘ اور ہاتھ کی کڑھائی کے کام میں احمدپور شرقیہ کی مثال نہیں۔
تسبیح خانہ لاہور میں عیدالفطر کی نماز پڑھ کر میں اپنے آبائی قدیمی شہر کی طرف روانہ ہوا‘ سہ پہر جب میں اس جگہ پہنچا جہاں آئل ٹینکر کا اندوہناک واقعہ ہوا‘ میری آنکھوں سے اشک گرے اور دل سے مسلسل استغفار کہ مولا! اس قدیمی شہر نے آج تک اتنا بڑا حادثہ نہ دیکھا‘ شاید اس شہر کی تاریخ میں بڑے بڑے فاتحین آئے‘ کیونکہ شہر کے وسط میں ابھی بھی ایک بہت بڑے پرانے قلعہ کے آثار موجود ہیں جسے شہر کی آبادی نے گھیر لیا۔ یقیناً فاتحین کی جنگ و جدل ضرور ہوئی ہوگی لیکن شاید اتنے افراد اور اس بے دردی سے مرے اور جلے نہیں ہوں گے۔ میں بار بار آسمان کی طرف نظر اٹھاتا اور دوسری طرف جلی گاڑیاں‘ رکشے‘ موٹرسائیکل اور خود آئل ٹینکر اور آگ ہی آگ کے آثار اور ایک درخواست اور فریاد کرتا مولا! تو ظالم نہیں‘ اور یقیناً نہیں‘ نعوذ باللہ ہم تجھے ظالم نہیں کہہ سکتے‘ مولا! جو ہوا ہماری خطائیں‘ ہماری کمیاں‘ ہمارا قصور مولا! تو سخی ہے اور کریم ہے‘ بس ان مرنے والوں کی بال بال مغفرت فرما‘ تیرے حبیب ﷺ مدینے والے نے فرمایا ہے کہ جل کر مرنے والا شہید ہوتا ہے‘ ایک طرف میری درد کی یہ کیفیات اور غم کے یہ احساسات‘ جائے حادثہ کے بالکل قریب عبقری حویلی (باغ) جو کہ میری گاڑی کا صرف پونے دو منٹ کی ڈرائیو پر ہے‘ پہنچا تو پتہ چلا کہ حویلی کے مالی کے دو بیٹے بھی اس حادثہ میں جان گنوا بیٹھے ہیں‘ کیا کرنے گئے تھے؟ پٹرول بھرنے گئے تھے‘ اب میری آہیں‘ آنسو‘ سسکیاں اور غم اور اس کی کیفیات اور زیادہ بڑھ گئیں‘ مولا! ہمارے مزاجوں سے امانتیں اور دوسروں کے مالوں کی حفاظت کا مزاج کہاں لُٹ اور کھو گیا‘ ہم تو وہ تھے جو دوسروں کے ایک ایک پیسے کے رکھوالے تھے‘ اسی احمدپور شرقیہ میں میری نظریں ہواؤں اور فضاؤں میں ان لوگوں کو ڈھونڈتی رہیں جن میں سےچند کو میں نے دیکھا اور بہت کو سنا کہ ایک جگہ گندم کی بوری گری اور پھٹی ہوئی تھی‘ سرراہ ایک گدھا سوار ان پڑھ آدمی وہاں ٹھہر گیا اور ہر آنے جانے والے سے اس کے مالک کا پتہ پوچھنے لگا یہ صبح کا وقت تھا‘ حتیٰ کہ دن ڈھل گیا‘ اگر اس گندم کو کھانے کیلئے کوئی جانور آتا تو اس کیلئے رکاوٹ‘ کوئی پرندہ آتا تو اس کیلئے اوٹ‘ یوں دن ڈھلے ایک صاحب اپنی بیل گاڑی پر سوار جب پہنچے تو حیرت سے دیکھنے لگے کہ یہ گندم تو میری ہے وہ کہنے لگا: میں نے کون سا کہا میری ہے یقیناً! آپ کی ہے میں آپ کی حفاظت کیلئےیہاں ٹھہر گیا تھا کہ کوئی اس کو غلطی سےاستعمال کرکے کہیں گنہگار نہ ہوجائے‘ اس نے بہت زیادہ شکریہ ادا کیا‘ دونوں نے مل کر گندم صاف پٹ سن کی بوری میں ڈالی اور باقی جو مٹی میں مل گئی تھی وہ علیحدہ کسی چادر میں باندھ کر اس کی بیل گاڑی میں رکھوائی‘ بیل گاڑی چل پڑی تو تھوڑی دیر کے بعد پھر واپس آگئی اور گدھا سوار سے وہ شخص کہنے لگا کہ یہ میری بوری تو صبح گری تھی گھر پہنچ کر مجھے یاد آئی‘ میں اپنے سواری دوڑا کر یہاں آیا تھا لیکن آپ نے اس وقت سے لے کر اب تک اس کی نگرانی کی کیا آپ نے کھانا کھایا؟ گدھا سوار کہنے لگا نہیں! لیکن کھانا ضروری نہیں‘ مومن کے مال‘ جان اور عزتوں کی حفاظت اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ میں احمدپور شرقیہ شہر میں پندرہ دن رہا‘ لیکن اداس اداس‘ بجھا بجھا ملاقاتیوں کا ہجوم‘ پر میرے وجود میں ایک سوال تھا جس کا مجھے جواب چاہیے تھا مولا! تیری تقدیر غالب ہے جو تو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے مجھے تجھ سے نہ گلہ ہے نہ شکوہ! لیکن شہنشاہ اعظم مجھے ایک سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ اسی احمدپور میں تو ایک گندم کی بوری کے تحفظ کیلئے ایک شخص بھوکا پیاسا نگران بنا رہا اور اسی احمدپور میں پٹرول کی لوٹ کیلئے لوگوں کی جانیں ختم ہوگئیں۔ بس پندرہ دن اسی سوچ و بچار کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا وہ یہی تھا کہ سوفیصد قصور میرا (طارق)ہے ۔ اے کاش! کہ میں انہیں سمجھا دیتا‘ ان کی منت کردیتا‘ ان کے اندر امانت داری کا جذبہ اور کسی کی امانت کی حفاظت کا احساس بیدار کردیتا‘ پھر میں نے دو نفل توبہ کے پڑھے اور اللہ سے رو رو کر ان کی مغفرت کی دعا مانگی اور اپنی کوتاہیوں پر استغفار کیا‘ کہ مولا! تو مجھے معاف کردے یہ ان کا قصور نہیں یہ میرا قصور ہے‘ یہ ان کی خطا نہیں میری خطا ہے یہ ان کا جرم نہیں میرا جرم ہے۔ تو امت کو معاف کردے اور پورے وطن کے ایک ایک فرد کے مزاج میں چاہے وہ حکمران ہے یا عوام ہے امانت کا سچا جذبہ پیدا کردے کیونکہ تو خود امین ہے اور امانتوں کو سوفیصد پسند کرتا ہے۔ میں اپنے اندر ابھی تک ایک چبھن کڑھن اور درد محسوس کررہا ہوں کہ میرے شہر احمدپورشرقیہ کو کیا ہوگیا؟ اور ایسا کیوں ہوا؟ بس میرا ہی قصور ہے نہ حکمرانوں کا‘ نہ عوام کا نہ کسی اور کا۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 018 reviews.